عالم برزخ کے بے شمار راز:قارئین! جب سےمیں نے قبر کے حالات سنانا شروع کیے ہیںاور کشف القبور کے عمل کے فوائد اور برکات آپ کو بیان کرنا شروع کیا اس دن سے مسلسل میرے اوپر قبروں کے اور عالم برزخ کے اور بے شمار راز کھل رہے ہیں میں حیران بھی ہوں اور نہایت عجیب کیفیت میں مبتلا ہوں کہ قبر کو ہم نے ایک زمین کا حصہ‘ مٹی کا ڈھیر اور بے حیثیت چیز سمجھ رکھا ہے‘ میں اپنی دنیا کا مست انسان ہوں‘ مجھے لوگوں کے اعتراضات نے کبھی مجھے میرے مشن سے نہیں ہٹایا میں انسانیت کو کیا دےرہا ہوں‘ دھوکہ فریب جھوٹ یا حقائق! ایک وقت آئے گا کہ فیصلہ ہوگا۔ میرا اوڑھنا بچھونا عرصہ دراز سے قبرستان رہے ہیں قبرستان کو ہمیشہ میں نے اپنی زندگی کا ساتھی بنایا کیونکہ ایک وقت عنقریب آنے والا ہے کہ میں خود قبرستان کا حصہ بن جاؤں گا! اللہ تیرا میرا خاتمہ ایمان پر کردے ۔(آمین) ایک رات کی بات ہے یہ گرمیوں کی رات ہر طرف ٹڈیاں‘ سانپ اور مختلف حشرات الارض اپنی آوازیں نکال رہے تھے ہر تھوڑی دیر کے بعد کسی قبر یا جھاڑی سے سرسراہٹ کی آواز آتی‘ کبھی نیولا گزرتا ‘کبھی گوہ گزرتی ‘کبھی سانپ، یہ کشمکش اپنی جگہ‘ ادھر میرا عمل جو کہ کشف القبور کا عمل ہے اس کا ورد اس کی طاقت او ر اس کی توجہ میں اسی توجہ میں مصروف تھا کہ اچانک بے ساختہ میرے قدم ایک قبر کی طرف اٹھے۔ خستہ حال قبر کےباسی کا انٹرویو:قبر اپنے آثار سے محسوس ہورہی تھی کہ بہت پرانی ہے اور بہت قدیم ہے اور اس کی خستگی بتارہی تھی کہ اس کا کوئی وارث نہیں ہےیا اس کے وارثوں کی کمی ہے‘ میں قبر کے قریب جاکر بیٹھ گیا‘ میں نے اپنےآپ کو اللہ کے سپرد کیا اور اللہ کی ذات کو متوجہ کرکے عرض کیا ۔مولا اس قبر والے کو اس کی روح لوٹا دے اور مجھے اس کے حالات واضح کردے کہ اس کی زندگی کے دن رات کیا تھے؟ یہ مجھے کچھ عبرت اور نصیحت کی باتیں بتائے۔ یہ مجھے کائنات کے حقائق بتائے‘ میں کائنات کی حقیقتیں سننا چاہتا ہوں ‘دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچی ‘انسان ساری زندگی کمائی کرتے کرتے لیکن انجام پتہ ہی قبر میں چلتا ہے اور قبر ہی اصل حقیقتوں کو آشکار کرتی ہے کہ انسان اصل میں ہے کیا! میرے قدم چلتے چلتے اس جگہ
رک گئے اور میں ایک پرانی قبر کے قریب ہوکر بیٹھ گیا اور پھر میری وہی توجہ اور اللہ کی ذات کی طرف دھیان اور پھر کائنات کے رازوں کا آشکار ہونا۔ اچانک وہ قبر سے باہر نکل آیا: میں انہی کیفیات میں بیٹھا اپنا عمل کررہا تھا اچانک صاحب قبر اپنےحقیقی اور اصلی جسم کے ساتھ آکر میرے سامنے بیٹھ گئے۔ ان کو میں نے سلام سے مخاطب کیا، سلام کے بعد میں نے ان سے پوچھا آپ کیا کرتے تھے؟ کہنے لگے زندگی میں میں نے مختلف مزدوریاں مختلف کاروبار کیے میں ایک نہایت سفید پوش اور غریب انسان تھا ۔میرا والد ایک کسان مزدور تھا، ہم بہن بھائی والد کی زندگی میں ہی علیحدہ علیحدہ ہوگئے اور میرا والد تنہا زندگی والدہ کے ساتھ گزار کر فوت ہوگیا ۔میرے والد کی ایک بھائی کے سوا کوئی خدمت نہ کرسکا۔ خود میں بھی نہ کرسکاجس کا مجھے بہت زیادہ پچھتاوا ہے۔قبرستان میں پھولوں کی دکان: ایک دفعہ مجھے ایک شخص ملا کہنے لگا اگر تو فلاں قبرستان کے قریب پھولوں کی دکان بنالے اور پرندوں کا دانہ رکھ لے تو قبرستان میں آنے والے تجھ سے یہ چیزیں لیں گے چونکہ وہاں اور کوئی نہیں ہے لہٰذا یہ چیز بہت بکے گی اور تیرے گھر کا خرچہ بہت اچھا چلے گا۔ مجھے اس کی بات اچھی لگی اس نے مجھے اس کا نفع بہت بتایا میں نے یہ کام کرنا شروع کردیا، چند ہی دنوں میں میرا کام چل پڑا، اب دن بدن میرے اندر ایک احساس بڑھنے لگا کہ یہاں ایک دکان ہو یا کم از کم ایک کھوکھا ضرور ہو اور میں نے قبرستان کی ایک جگہ پر چٹائی بچھا کر پھول اور دانہ تو لگالیا لیکن یہ فکر روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ بوسیدہ قبروں پر ناجائز قبضہ:آخر قبرستان کے ایک کونے میں جہاں دو تین قبروں کے برابر جگہ تھی اور قبریں پرانی ہوچکی تھیں ان میں ایک قبر کا نشان باقی تھا‘ باقی قبریں بوسیدہ ہوچکی تھیں میں نے ایک پر چھوٹا سا کھوکھا بنوا کر رات کو اسی جگہ رکھ دیا قبریں میرے کھوکھے کے نیچے دب گئیں۔ صبح لوگوں نے دیکھا کچھ نے شور شرابہ کیا، کچھ نےاعتراض کیا لیکن میں نے اپنا کھوکھا رکھے رکھا، مہینہ دوکے بعد لوگ اس واقعہ کو بھول گئے اور میری دکان پکی ہوگئی۔ کچھ سالوں کے بعد میرا کام اور بڑھ گیا اور مجھے احساس ہوا اب مجھے اس کھوکھے کو پکی دکان کی شکل بنادینی چاہیے قبرستان کے اردگرد رہنے والوں سےتعلق بنایا‘ کچھ کو کھلایا پلایا ‘آخرکار میں نے وہاں پکی
دکان ڈال لی۔ اس پکی دکان ڈالنے کیلئے مجھے بے شمار قبریں کچھ کےنشان اور بہت بے نشان مسمار کرنی پڑیں میرے دل میں پہلے احساس تو ہوا لیکن مال و دولت نے یہ احساس مجھ سے چھین لیا، اب میری دکان پکی ہوگئی چونکہ ساتھ کچھ محلہ اور گھر بھی تھے، میں نے کھانے پینےکی چیزیں بھی ساتھ رکھ لیں اسی دوران میری اولاد جوان ہوگئی میں نے ان کو اچھی تعلیم دلوائی اور وہ اچھے اچھے شعبوں میں چلے گئے۔ میں ستتر سال کا ہوکر مرا اور میرے بیٹوں نے میرے بعد وہ دکان بہت مہنگے داموں فروخت کردی اور پیسےآپس میں بانٹ لیے جس دن سے میں قبرستان میں آیا ہوں۔ میں نے ان کا گھر چھینا انہوں نے میرا سکون چھین لیا: اس دن سے لے کر آج تک قبرستان کے وہ مردے جن کی قبروں کو میں نے مسمار کرکے اپنی دکان بنائی تھی مسلسل مجھے جھنجھوڑتے ہیں انہوں نے میرا پل پل کاسکون ختم کیا ہوا ہے ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو قبرستان میں بہت اچھی حالت میں تھے میں نے ان کا گھر ان سے چھینا تھا ان کی روحیں اب مجھےچین نہیںلینے دیتیں‘ سالہاسال ہوگئے ہیں میری قبر کو اور میں اپنی قبر میں سسک اور تڑپ کر رہ رہا ہوں۔ میرا کوئی دن کوئی رات اور کوئی صبح اور کوئی شام ایسی نہیں گزرتی کہ میں نے سسک اور تڑپ کر نہ گزاری ہو، میرا ہر پل ‘میرا ہر لمحہ بہت پریشان اور نہایت مایوس ہے۔ مجھے کسی وقت بھی چین نہیں آتا مجھے کسی وقت بھی سکون نہیں ملتا میں نہایت بے سکون ہوں۔ اے کاش! میں قبریں مسمار نہ کرتا: میں نہایت بے چین ہوں، صبح عذاب اور ہوتا ہے دوپہر عذاب اور ہوتا اورشام کو عذاب اور ہوتا ہے۔ میں اس وقت کو رو رہا ہوں کہ اے کاش مجھے وہ شخص نہ ملتا میں قبروں کی بے حرمتی نہ کرتا‘ میں قبروں کو مسمار کرکے ان قبروں پر بیٹھ کر سچ جھوٹ کی روزی نہ کماتا۔ داستان ایک مرے ہوئے خواجہ سرا کی: (اس شخص سے ملاقات کے بعد) اسی ہی رات مجھے ایک اور شخص ملا وہ شخص کیا تھا وہ ایک ہیجڑہ تھا یعنی خواجہ سرا۔ اس کی داستان سب داستانوں سے عجیب و غریب تھی، کہنے لگا: میں ماں باپ کا اکیلا بیٹا تھا، ماں باپ بہت مالدار تھے اور نہایت دولت والے تھے ماں باپ نے مجھے بڑی چاہت سے پالا اور بڑی چاہت سے دولت اور چیزیں میرے اوپر نچھاور کردیں۔ اسی دوران مجھے بعض بُرےدوستوں کی ایسی صحبت ملی کہ میں ان دوستوں کی صحبت میں دھنستا چلا گیا، وہ دوست اچھے نہیں تھے‘ وہ بُرے دوست تھے‘ انہوں نے مجھے بُری زندگی کی طرف مائل کیا، اس چیز کا احساس میرے والدین کو ہوگیا‘ وہ مجھے روکتے اور ٹوکتے رہتے تھے لیکن مجھے ان کی باتوں کا کوئی احساس نہ ہوا میں اپنے روزمرہ کی باتوں میں دھنستا چلا گیا اور ایک وقت تھا میں نے گھر چھوڑ دیا اور برائیوں میںمیرے دن رات گزرتے چلے گئے۔سسکتے‘ روتے والدین دنیا سے چلے گئے: میرے والدین میری شادی کرنا چاہتے تھے وہ جائیداد کا وارث ڈھونڈنا چاہتے تھے لیکن مجھے شادی سے شدید چڑ تھی‘ میں شادی نہ کرسکا آخر میرے والدین سسکتے اور روتے اس دنیا سے گزرگئے۔ مجھے پھر بھی کوئی احساس نہ ہوا مال و دولت کو میں نے خوب اڑایا‘ خوب عیش کی‘ آخر کب تک؟ مال و دولت میرے پاس نہ رہی اور پھر میں نے مانگنا شروع کردیا، انہی حالات میں گزرتے گزرتے میں مر گیا۔ کئی بار مجھے آخرت کا خیال آبھی جاتا اس رنگین زندگی نے مجھے فکر آخرت سےدور رکھا۔خواجہ سرا کی قبر کے ہولناک حالات: جس دن مجھے قبر میں رکھا گیا وہ دن منگل کا تھا، دوپہر کا وقت تھا، میں جب قبر میں گیا سب مجھے دفن کرکے چلےگئے، تو قبر کےہولناک حالات مجھ پر شروع ہوئے‘ آگ، چنگاریاں، انگارے، دھواں آتش یہ تمام چیزیں ایسی تھیں جو میرا انتظار کررہی تھیں۔ مجھے نہایت پریشانی ہوئی‘ اس ہولناکی میں میرا انگ انگ چٹخ اٹھا اور میری طبیعت میں بہت زیادہ بے چینی اور گھبراہٹ ہوئی۔ مجھے احساس ہوا کہ اب مجھے یہاں کوئی نہیں بچا سکتا اوریہ آگ مجھے سوفیصد جلا تی رہے گی اور میرا کچھ نہیں بچے گا۔والد کی دعا نے عذاب قبر سے بچالیا: اسی کشمکش میں میں پریشان تھا۔ ایک چھوٹا سا جگنو میرے پاس آیا مجھے اس کا احساس نہ ہوا جب وہ جگنو میرے قریب آیا اور وہ روشنی جو پہلے جگنو کی طرح تھی‘ پھیلتے پھیلتے بہت زیادہ پھیل گئی اور یہاں تک پھیلی کہ میں اس روشنی میں نہا گیا میں حیران کہ یہ روشنی کیا ہے؟ بہت دیر میں اس روشنی میں ڈوبا رہا‘ مجھے بہت سکون ملا میرے دل کی وحشت اور خوف ختم ہوگیا۔ میں جب اس روشنی سے نکلا تو میں نے اپنے اردگرد سکون پایا تمام آگ تمام تکالیف تمام پریشانیاں مجھ سے دور چلی گئیں۔ مجھے ایک آواز آئی آج تیرے باپ کی دعا تجھے بچاگئی ہے ورنہ تو اس قابل تھا کہ تیری برزخی زندگی ہمیشہ آگ میں گزرتی اور میرے باپ کی وہ دعا مجھے سنائی گئی جو ساری زندگی میرا باپ کرتا تھا کہ یااللہ اس کی دنیا تو برباد ہوگئی ہے‘ مولا اس کی آخرت نہ برباد ہو‘ یااللہ اس کی دنیا تو تباہ ہوگئی ہے یااللہ اس کی آخرت نہ تباہ ہو‘ یااللہ یہ دنیا میں تو رسوا ہوگیا لیکن مولا کریم یہ آخرت میں رسوا نہ ہو بس یہ بول مسلسل مجھے سنوائے گئےاور میں ان بولوں میں نہایت ڈوبتا چلا گیا ۔ ماں کی دعا سے زیادہ باپ کی دعا مقبول: اور پھر ایک بول سنوایا کہ میرے بندے یاد رکھ ماں کی دعا سے زیادہ باپ کی دعا اور ماں کی بددعا سے زیادہ باپ کی بددعا اثر رکھتی ہے جس کو باپ کی بددعا کھاگئی وہ دنیا کا سب سے ناکام انسان اور جس کو باپ کی دعا لگ گئی وہ دنیا کا نہایت کامیاب انسان۔ بس میرے باپ کی دعا نے مجھے قبرمیں سکون دیا اور قبر میں چین دیا، میں نے اس ہیجڑے سے سوال کیا کہ باپ کی دعا اثر رکھتی ہے؟ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگا اور کہنے لگا جتنا باپ کی دعا اثر رکھتی ہے شاید کسی اور کی دعا اثر نہ رکھتی ہو جس نے باپ کو ستایا اور اس کی بددعائیں لیں میں نے پورے قبرستان میں ایسے لوگوں کو بہت کم سکھ چین راحت کا سانس لیتے دیکھا ہے اور میں نے اپنی برزخی زندگی میں محسوس کیا ہے کہ ایسے لوگوں کو بہت زیادہ تکلیف پہنچی ہے جنہوں نے باپ کا ساتھ نہیں لیا اور ہاتھ نہیں لیا اور باپ کی بددعائیں لی ہیں۔ مردہ ہیجڑے نے بتائی نہایت راز کی بات:اسی شخص نے مجھے ایک انوکھی بات بتائی کیونکہ میری اس سے بہت تفصیلی بات ہوئی اور بہت دیر تک میں اس سے باتیں کرتا رہا۔ اس شخص نے ایک راز اور پتے کی بات بتائی وہ کہنے لگا قبرستان میں پہلے سے قبر تیار ہوتی ہے جو کہ انسانوں کو نظر نہیں آتی کیونکہ جہاں کا خمیر ہے وہاں آکر رہے گا اور پھر انہوں نے یہ بات واضح کی کہ جو جہاں سے پیدا ہوا ہے اسی مٹی کے خمیر میں ہی جاکر رہے گا چاہے وہ دنیا کا کوئی کونہ ہے اور جو راز اس فرد نے مجھ سے بیان کیا وہ یہ تھا کہ فرشتے پہلے سے قبریں تیار رکھتے ہیں ایک قبر ہم کھودتے ہیں ایک قبر فرشتوں نے پہلے سے تیار رکھی ہوتی ہے اس شخص کے اعمال کے مطابق قبر ہلکی ہے یا بھاری‘ قبر آسان ہےیا مشکل‘ قبر نوری ہےیا ناری‘ قبر پھولوں کی سیج ہے یا آگ کے انگارے‘ یہ اعمال کے مطابق اور عقائد کے مطابق وہ قبریں پہلے سے تیار ہوتی ہیں جس طرح اللہ کے نیک بندوں کو ایک کفن انسان پہناتا ہے اور ایک کفن وہ ہوتا ہے جو فرشتے پہناتے ہیں‘ فرشتوں کا کفن انسانوں کو نظر نہیں آتا اسی طرح ایک قبر وہ ہوتی ہے جو فرشتوں نے پہلے سے تیار رکھی ہوتی ہے اور انسان کو صرف اسی قبر میں ڈالا جاتا ہے جو فرشتوں نے پہلے سےتیار رکھی ہوتی ہے‘انسان کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنے لیے کسی اچھی جگہ یا اچھی قبر کا انتخاب کرسکے اس کو قبر اس کی نیکی اور اعمال کے مطابق ملنی ہوتی ہے ایک اور راز بتایا کہ یہ جس وقت قبروں میں دفن کردیا جاتا ہے تمام لوگ دفن کرکےچلے جاتے ہیں اس وقت میت کے جسم میں واپس روح کو لوٹایا جاتا ہے اور وہ ایک نارمل انسان کی طرح ہوجاتا ہے اور اس کے سامنے قبر کی حدود ختم ہوجاتی ہے یعنی قبر ایک چھوٹا سا مٹی کا گڑھا ہوتا ہے اس وقت وہ گڑھا نہیں ہوتا بلکہ تا حد نظر جیسے آسمان یا میدان نظر آتا ہے اسی طرح اسے بھی تاحد نظر یا تو پھول کلیاں سبزہ اور خوشبو یا پھر کانٹے اور آگ۔کلمہ اور صبر سے روشن قبر: اگلی بات اور کہی کہنےلگا کہ میں نے قبر میں ایک تجربہ کیا ہے جو مجھے یہاںآکر ہوا ہے جو نفع کلمہ پڑھنے والوں کو قبر میں ہوتا ہے اور صبر کرنے والوں کو قبر میں ہوتا ہےوہ کسی اور کو نہیںہوتا کئی ساسوں کو میں نے صبر کرنے کی وجہ سے قبر میں نہایت پرسکون دیکھا ہے‘ کئی بہوؤں کو صبر کرنے کی وجہ سے‘ کئی ماتحت صبر کرنے کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات اور درجات پاچکے ہیں اور کئی بڑے اپنے ماتحتوں کی نافرمانیوں کی غلطیوں پر صبر کرنے کی وجہ سے بہترین زندگی کو پاچکے ہیں۔ بس میرا تجربہ یہی ہے کہ کلمہ اور صبر یہ دو چیزیں ایسی ہیں جو انسان کو مرنے کے بعد شایان شان اور عالیشان ابدی زندگی دیتی ہیں۔ ابھی ہمارے قریب میں ایک میت آئی اس کے پاس کلمہ کے بے شمار نصاب پڑھے ہوئے تھے اور اس کے مرنے کے بعد اس کے وارث بھولے نہیں بلکہ اسے مستقل کلمہ کے نصاب بخشتے رہے بس یہ کلمہ کا نصاب اس کے اتنے کام آیا کہ اس کی زندگی میں یعنی اس کی قبر میں اور مرنے کے بعد کی زندگی میں سکون ا ور چین آگیا اور وہ پورے قبرستان میں قابل رشک بن گیا۔ ہمارے ہاں قبرستان میں ایک رواج ہے کہ جو جنتی آتا ہے اور اپنے ساتھ بہت ساری نیکیاں، سخاوتیں، صبر، ذکر، اذکار، کلمہ، نماز اور مخلوق کی خدمت اور مخلوق کے ساتھ صلہ رحمی اور برداشت لے کرآتا ہے تو تمام قبرستان والےاس سے دوستی کرتے ہیں اس سے ملتےہیں اس کا استقبال کرتےہیں اگر کوئی ایسا شخص جس کے پاس زندگی کا یہ سامان نہ ہو تمام قبرستان اس شخص سے گریزاں ہوتا ہے اور اس شخص سے دور رہتا ہے۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں